Monday, September 27, 2021

گلدستہ ہائے عقیدت

 گلدستہ ہائے عقیدت

نہ شکل ہے، نہ عقل، نہ ہنر نہ نسبت۔ پھر بھی یہ جسارت ۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک روضے پر حاضری کے وقت بے اختیاری سرزد ہوئی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کہ یہ کاوش شایانِ شان تو نہیں لیکن مجھ ناچیز کے لیے یہ چند الفاظ کہنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ آمین۔


سچ ہے کہ ہر غلام کو رکھتا ہے بے قرار

دربارِ مصطفیؐ سے بلاوے کا انتظار


بے چینیوں کا قلب کی ہوتا نہ تھا شمار

شہرِ نبیؐ میں آ کے جنھیں آ گیا قرار


رکتا نہیں پھر آنکھ میں سیلابِ اشتیاق

پیشِ نظر جو ہو مرے محبوبؐ کا دیار


مجھ پر ہے انؐ کی اب نَظَرِ التفات یوں

سب رنج میری زیست سے ہونے لگے فرار


محبوبِ کبریاؐ کی محبت کے گل کھلے

دشتِ دلِ حزیں میں تو رہنے لگی بہار

Tuesday, August 10, 2021

فلسفیؔ ہر کسی کو خوش رکھنا

 خوشگوار آخرت کی چاہت میں

زندگی کٹ گئی اطاعت میں 


وہ مصیبت میں یاد آیا پھر

بھول بیٹھا تھا جس کو عشرت میں


عمر بھر مبتلا رہے کچھ لوگ

ایک کے بعد ایک حسرت میں


عشق والے اصول کے پابند 

کب سے ہونے لگے محبت میں ؟


میں نے حیرت سے پوچھا مجمعے سے

کون بولا مری حمایت میں؟


میرے جیسے بہت سے پروانے

جل گئے شمع! تیری قربت میں


میزبانی رقیب کی ہائے

میں تو مارا گیا مروت میں


پوچھتے ہیں وہ در بدر کرکے 

کیا گنوایا ہے تم نے الفت میں؟


دوست بن کر بہت سے لوگ اکثر

اور ہوتے ہیں کچھ حقیقت میں 


فلسفیؔ ہر کسی کو خوش رکھنا 

ڈال دے گا تجھے ہلاکت میں

Monday, August 9, 2021

تیرے جیسا مرا نصیب نہیں

پاس رہ کر بھی وہ قریب نہیں

کیا یہی بات کچھ عجیب نہیں


لوگ اچھا نہیں سمجھتے اسے

جبکہ وہ آدمی غریب نہیں


باغ سے پھول توڑنے والا

ہے کوئی اور، عندلیب نہیں


تُو نہ سمجھے گا میرا درد کبھی

کیونکہ تیرا کوئی رقیب نہیں


جس کو چاہوں اسی کے ساتھ رہوں

تیرے جیسا مرا نصیب نہیں


فحش تحریر کا مصنف شخص

ہو گا سب کچھ مگر ادیب نہیں 

Wednesday, August 26, 2020

تزکیے کے نام پر اعمال کے کھاتے کبھی

چھوڑ کر دستورِ دنیا  پیار کے ناتے کبھی 

کاش اپنے فیصلے تم خود بھی کر پاتے کبھی 


نکہتیں سانسوں میں بس جاتیں تمہارے لمس کی

اس قدر نزدیک  جو تم خواب میں آتے کبھی 


ایک ہنگامے کا منظر دیکھتی دنیا جو ہم

نغمہِ دل کو وفا کے ساز پر گاتے کبھی


ہم اگر کرتے پرانی تلخیوں کا تذکرہ

آئینے کا سامنا بھی تم نہ کر پاتے کبھی


دل کی یہ بنجر زمیں سیراب ہو جاتی اگر

غم کے بادل آنسوؤں کا مینہ برساتے کبھی 


فلسفیؔ چُپ بیٹھ کر کھولو تم اپنے ذہن میں

تزکیے کے نام پر اعمال کے کھاتے کبھی  

Sunday, August 23, 2020

فلسفیؔ روزِ جزا کی ہے مُنادی زندگی

غیر کے ہاتھوں میں جب ہم نے تھما دی زندگی

شدّتِ جذبات نے مشکل بنا دی زندگی


ڈوبنے کے خوف کو دل سے نکالا اور پھر

عشق کے گہرے سمندر میں بہا دی زندگی


فائدہ نقصان ہے جس شخص کے پیشِ نظر

کیوں کسی کے نام پر اس نے لٹا دی زندگی؟


اب جہانِ عارضی کو چھوڑنا ہے ناگزیر

دردِ دل نے موت سے بدتر بنا دی زندگی


ہجر کی راتوں میں جلتی کاش ابھی مثلِ چراغ

وقت کی ظالم ہواؤں نے بجھا دی زندگی


رنج و غم کی تلخیوں میں مسکراہٹ گھول کر

خوش مزاجی کے لبادے میں چُھپا دی زندگی


ایک دن ہونا ہے بے شک خیرو شر کا فیصلہ

فلسفیؔ روزِ جزا کی ہے مُنادی زندگی  

Monday, June 8, 2020

وصل کی شب کو مختصر دیکھا

وصل کی شب کو مختصر دیکھا
ہجر کا دن طویل تر دیکھا

رنگ وحدت کا چڑھ گیا مجھ پر
تجھے پایا جدھر جدھر دیکھا

بے وفا تیرے قرب کی خاطر
جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر دیکھا

اس کے سینے میں دل تھا پتھر کا
جس کی آنکھوں کو آج تر دیکھا

Wednesday, February 26, 2020

یہ زندگی ابھی ہمیں کیا کیا دکھائے گی

مجبوریوں کے نام پہ حسرت کمائے گی
یہ زندگی ابھی ہمیں کیا کیا دکھائے گی

معلوم کس کو تھا کہ شبِ ہجر آئے گی
یوں تیرگی نصیب کی خفت مٹائے گی

داغِ مفارقت تو ہمیں دے گیا ہے وہ
لیکن اسے بھی چین سے کیا نیند آئے گی؟

وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
تنہائیوں کی چوٹ بہت ظلم ڈھائے گی

خوشبو وصالِ یار کی اس دشت ہجر میں 
اک دن بہار بن کے کبھی مسکرائے گی 

رعنائیاں جو موسمِ الفت کی خاص ہیں 
قسمت انھیں کبھی نہ کبھی کھینچ لائے گی

اُٹھی ہے ایک دم سے جو کالی گھٹا ابھی
کچے کسی مکان پہ بجلی گرائے گی 

اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زبان تو کاٹی نہ جائے گی